ہمارے یہاں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جن کے نزدیک بیوی ملازمہ اور بزرگ صرف گھر کی دیکھ بھال کرنے والوں سے زیادہ اہمیت کے حامل نہیں ہوتے۔ ایک مشہورمصنف نے اپنی کتاب میںلکھا ہے کہ ’’دوستی پرانی ہوجائے تو خاموشی بھی مزہ دینے لگتی ہے۔‘‘ بہت سےشادی شدہ جوڑے خصوصاً مرد کہتے ہیں کہ بیگم پرانی ہونے لگے تو اس سےبات کرنے سے بہتر ہے کہ خاموشی اختیار کرلی جائے کیونکہ جب بات کرنے کو دل ہی نہ چاہے تو کیا بات کی جائے او ر باتیں بھی کریں توکیا کریںکہ سب باتیں تو بہت پہلے ہی کرچکے ہوتےہیں۔
اپنے رویےمیں تبدیلی لائیں
اگر آپ بھی یہی خیالات رکھتے ہیں تو پھر اپنے رویوں میں تبدیلی لائیں اور جان لیں کہ شریک زندگی سے گفتگوکرنا اور ہنسنا ہنساناوقت کا ضیاع نہیں بلکہ طبی لحاظ سےبھی مفید ہے۔ کیونکہ سائنسدانوں نے اسے عقل کی کسوٹی اور عمل کے میزان پر تولا اور پرکھا ہے اور پھر کہا ہے کہ شریک حیات سے اچھی گفتگو انسان کے بلند فشار خون (ہائی بلڈ پریشر) کو کم کرتی ہے۔ جو لوگ اپنی زندگی کے آخری سالوں میں اپنے رفیق زندگی سےبچھڑ جاتے ہیں وہ جذباتی، گھٹن کا شکار ہوکر عارضہ قلب اور دیگر کئی مختلف امراض میںمبتلا ہوجاتے ہیں جبکہ وہ لوگ جن کی بیوی ان کے ساتھ ہوتی ہے وہ زیادہ چاق و چوبند‘ مثبت محسوس کرتے ہیں اور نسبتاً کم بیمار ہوتے ہیں۔
شوہرکا شکوہ اور بیوی کی شکایت
کہتے ہیں کہ شادی کے ابتدائی دنوں میں شوہر بولتےہیں اور بیگمات صرف سنتی ہیں اور اس کے بعد بقایا ساری زندگی صرف بیویاں بولتی ہیں اور شوہر چپ چاپ سنتے ہیں لیکن بعض گھرانوں میں دونوں بولتے ہیں اور ہمسائے سنتے ہیں۔ یہ چیز میاں بیوی کے رشتے کے لیے بہت ہی خطرناک ہے۔ اب جبکہ سائنسدان بھی کہہ رہے کہ میاں بیوی کے درمیان اچھی گفتگو جذباتی طور پر انسان پر خوشگوار اثر ڈالتی ہے اور اس کے طبی فوائد بھی ہیں تو ان بیگمات کو جن کے شوہروں کو یہ شکوہ ہے کہ وہ بہت بولتی ہیں ان کے لیےیہی مشورہ ہے کہ اگر انہیں شوہر کی صحت عزیز ہےتوا نہیں اپنا شکوہ شکایت کرنے دیں لیکن ساتھ ساتھ جو بیویاں شوہروں کے حاکمانہ رویے اور حکم چلانے کی عادات کے باعث ان کے سامنے چپ چاپ کھڑی رہنے کی عادی ہیں تو ایسےشوہروں سے بھی کہتے ہیںکہ اپنے بچوں کی ماں اور گھر کا چین و سکون عزیز ہے تو بیوی پر بےجا حکم چلانا چھوڑ دیں اور اسے خوفزدہ کرکے اپنی مردانگی کو تسلیم کروانے کی عادات بدلیں۔
خوشگوار انداز گفتگو سےخوشگوار زندگی
بیوی سے نرم اور خوشگوار لہجے میں باتیں کریں او رہلکے پھلکے مضوعات پر بات چیت کرتے رہیں۔ اس طرح بیوی جو بے چاری دن بھر آپ کے خوف میں مبتلا رہ کر ذہنی دبائو کی مریض بن جاتی ہے اس کی بھی حالت سنبھلے گی۔ اب جبکہ مغربی سائنسدان بھی باہمی گفتگو کی افادیت تسلیم کررہے ہیں تو ہمیں دوسروں کو چھو ڑ کر خود اپنی صحت ہی کی خاطر رویوں میں تبدیلی لانی چاہیے۔میاں بیوی گاڑی کے دو پہیے ہیں، لیکن گاڑی میں ایک پہیہ ٹریکٹر اور دوسرا رکشہ کا ہو تب بھی بات نہیں بنتی۔ بات اس وقت بنتی ہے اور گاڑی تب ہی درست انداز میں چلتی ہے جب دونوں پہیوں میں توازن اور برابری ہو۔ اس لیے شوہر ہو یا بیوی دونوں کو چاہیے کہ خوشگوار زندگی کیلئےآپس میں خوشگوار تعلقات رکھیں۔
گھر کے تمام افراد کو بھی اہمیت دیں
ہنستے بولتے اور ہلکے پھلکے انداز میں گفتگو کرتے ہوئے زندگی کو گزاریں اور گھرمیں اگر کوئی بزرگ ہے تو انہیںبھی وقت دیں ‘ دو چار باتیں کرلیں کہ زندگی نام ہی دوسروں سے شفقت و محبت کا ہے۔ اگر کبھی میاں بیوی میں ناچاقی بھی ہوجائے تب بھی بات چیت بند نہ کیا کریں۔ گفتگو ختم نہ ہو، بات سے بات چلے اور اسی طرح زندگی چلتی رہے‘یہی کامیاب زندگی ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں